حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں اخوت ، علم و حکمت، آدمیت لے کے آئے ہیں ہر طرف جہالت نے ڈیرے جما رکھے تھے،جدھر نظر پڑتی ظلمت کی تاریکیاں ہی دکھائی دیتی تھیں۔انسان انسانیت کو بھول کر حیوانیت اپنا چکے تھے،انسانوں کا خون ارزاں تھا،قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔حرص و حوس پرستی اندر تک اپنے پنجے گاڑ چکی تھی۔برائی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی تھی،ہر برائی ڈنکے کی چوٹ پر کی جاتی تھی۔ بیٹی کو اپنے لیے گالی اور نحوست سمجھا جاتا اور بیٹی زندہ درگور کر دی جاتی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا شروع ہوتا جو گالی گلوچ سے نکل کر قتل و غارت کے وسیع و عریض میدانوں میں پہنچ جاتا، نسلوں کی نسلیں ان جھگڑوں کی نظر ہو جاتیں۔ زنا، بدکاری، شراب نوشی، سود خوری، حرص و ہوس، قتل و غارت، عزتوں کی پامالی، نسل پرستی، بت پرستی، ذات پات گو کہ ہر قسم کی برائی معاشرے میں عام ہوچکی تھی۔ جب جہالت اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، ہر جانب شر ہی شر پھیل چکا تھا۔معاشرہ تباہی کے دھانے پر آکڑا ہوا تھا،قریب تھا کہ یہ معاشرہ تباہ و برباد ہوجاتا اور یہ نظام خود کا ہی گلا دبا لیتا۔ جب انسانیت ہر طرف سے اندھیرے کی طرف گرتی چلی جارہی تھی تب انسان اور انسانیت کی رہنمائی کے واسطے رب کریم نے رحمتہ اللعالمینﷺ کو بھیجا جنہوں نے آ کر انسانیت کی رہنمائی فرمائی۔ لوگوں کو خیر و شر کی تمیز سکھائی، انسانیت کو تباہ و برباد ہونے سے بچایا۔ اندھیروں میں روشنی کے چراغ جلائے، بھٹکے ہوؤں کو سیدھا رستہ دکھایا۔ وہ جو تمام انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے۔ نبی پاک ﷺ جو تعلیمات لے کر آئے ان تعلیمات نے دور جاہلیت کی ہر جہالت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ ان تعلیمات کی بنا پر بہت سے جاہلوں نے نبی کریم کی مخالفت کی بلکہ مخالفت میں ہر حد تک پار کرگئے۔ نبی اکرم کو جھٹلایا، ان پر طعن و تشنیع کی، الزامات لگائے، لہو لوہان کیا۔ (نعوذباللہ) مگر نبی کریم ہر مخالفت کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے رہے، اور مخالفت کا استقامت سے بہادری اور حکمت سے سامنا کیا۔ اور پھر ساری کائنات نے دیکھا کہ صرف 23 سال کے محدود عرصہ میں نبی کریم تاریک شب کو صبح پرنور میں تبدیل کر دیا اور ایسی تعلیمات انسانیت کو دیں جو روز محشر تک ہر انسان کی رہنمائی کرتی رہیں گی۔ نبی کریم ﷺ سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کی بنیاد میں شامل ہے بلکہ انسان کے ایمان کی تکمیل ہی تب ہوتی ہے جب اپنی جان سے بڑھ کر اللہ اور نبی کریم سے محبت کرتا ہے، اور انہیں اپنی زندگی میں سب سے مقدم رکھتا ہے۔ مگر آج کا مسلمان نبی کریم سے صرف زبانی کلامی محبت کرتا ہے، آج کے مسلمان کی رسول اکرم سے محبت بس بلندوبانگ دعوؤں پر مبنی ہے، مگر عملی طور پر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں
حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں اخوت ، علم و حکمت، آدمیت لے کے آئے ہیں ہر طرف جہالت نے ڈیرے جما رکھے تھے،جدھر نظر پڑتی ظلمت کی تاریکیاں ہی دکھائی دیتی تھیں۔انسان انسانیت کو بھول کر حیوانیت اپنا چکے تھے،انسانوں کا خون ارزاں تھا،قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔حرص و حوس پرستی اندر تک اپنے پنجے گاڑ چکی تھی۔برائی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی تھی،ہر برائی ڈنکے کی چوٹ پر کی جاتی تھی۔ بیٹی کو اپنے لیے گالی اور نحوست سمجھا جاتا اور بیٹی زندہ درگور کر دی جاتی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا شروع ہوتا جو گالی گلوچ سے نکل کر قتل و غارت کے وسیع و عریض میدانوں میں پہنچ جاتا، نسلوں کی نسلیں ان جھگڑوں کی نظر ہو جاتیں۔ زنا، بدکاری، شراب نوشی، سود خوری، حرص و ہوس، قتل و غارت، عزتوں کی پامالی، نسل پرستی، بت پرستی، ذات پات گو کہ ہر قسم کی برائی معاشرے میں عام ہوچکی تھی۔ جب جہالت اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، ہر جانب شر ہی شر پھیل چکا تھا۔معاشرہ تباہی کے دھانے پر آکڑا ہوا تھا،قریب تھا کہ یہ معاشرہ تباہ و برباد ہوجاتا اور یہ نظام خود کا ہی گلا دبا لیتا۔ جب انسانیت ہر طرف سے اندھیرے کی طرف گرتی چلی جارہی تھی تب انسان اور انسانیت کی رہنمائی کے واسطے رب کریم نے رحمتہ اللعالمینﷺ کو بھیجا جنہوں نے آ کر انسانیت کی رہنمائی فرمائی۔ لوگوں کو خیر و شر کی تمیز سکھائی، انسانیت کو تباہ و برباد ہونے سے بچایا۔ اندھیروں میں روشنی کے چراغ جلائے، بھٹکے ہوؤں کو سیدھا رستہ دکھایا۔ وہ جو تمام انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے۔ نبی پاک ﷺ جو تعلیمات لے کر آئے ان تعلیمات نے دور جاہلیت کی ہر جہالت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ ان تعلیمات کی بنا پر بہت سے جاہلوں نے نبی کریم کی مخالفت کی بلکہ مخالفت میں ہر حد تک پار کرگئے۔ نبی اکرم کو جھٹلایا، ان پر طعن و تشنیع کی، الزامات لگائے، لہو لوہان کیا۔ (نعوذباللہ) مگر نبی کریم ہر مخالفت کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے رہے، اور مخالفت کا استقامت سے بہادری اور حکمت سے سامنا کیا۔ اور پھر ساری کائنات نے دیکھا کہ صرف 23 سال کے محدود عرصہ میں نبی کریم تاریک شب کو صبح پرنور میں تبدیل کر دیا اور ایسی تعلیمات انسانیت کو دیں جو روز محشر تک ہر انسان کی رہنمائی کرتی رہیں گی۔ نبی کریم ﷺ سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کی بنیاد میں شامل ہے بلکہ انسان کے ایمان کی تکمیل ہی تب ہوتی ہے جب اپنی جان سے بڑھ کر اللہ اور نبی کریم سے محبت کرتا ہے، اور انہیں اپنی زندگی میں سب سے مقدم رکھتا ہے۔ مگر آج کا مسلمان نبی کریم سے صرف زبانی کلامی محبت کرتا ہے، آج کے مسلمان کی رسول اکرم سے محبت بس بلندوبانگ دعوؤں پر مبنی ہے، مگر عملی طور پر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں